گزشتہ 10 سالوں کے دوران صحافیوں کے قتل سے متعلق 81 فیصد معاملوں میں کسی ایک پر بھی فرد جرم ثابت نہیں ہوا، یہ بات سی پی جے کے 2021 گلوبل امپیونٹی انڈیکس میں سامنے آئی ہے
جینیفر ڈنہم/سی پی جے ڈپٹی ایڈیٹوریل ڈائریکٹر
شائع شدہ بتاریخ 28 اکتوبر 2021
صحافیوں کے پر اسرار اور غیر حل شدہ قتل کے پیش نظر صومالیہ اب بھی دنیا کا بدترین ملک ہے۔ یہ بات سی پی جے کے سالانہ گلوبل امپیونٹی انڈیکس میں سامنے آئی ہے۔ اس انڈیکس میں ان ممالک کی نشاندہی کی جاتی ہے جہاں صحافیوں کو سگنل آؤٹ کرکے مار دیا جا تا ہے اور مجرمین پر کوئی کارروائی نہیں ہوتی۔
اس انڈیکس کے مطابق ، گزشتہ سال کے مقابلے میں صومالیہ ، سیریا، عراق اور جنوبی سوڈان کےاندر اس معاملےمیں کافی کم تبدیلی نظر آئی ہے۔ اس فہرست میں صومالیہ کے بعد مذکورہ تینوں ممالک کے ہی نام آتے ہیں کیوں وہاں تصادم، سیاسی عدم استحکام اور کمزور عدلیہ کی وجہ سےصحافیوں کے خلاف تشدد کا ایک سلسلہ جاری رہتا ہے۔
لیکن تازہ اعدادو شمار -جس میں 1ستمبر 2011 سے 31 اگست 2021 تک کے اعداد و شمار شامل ہیں- افغانستان میں صحافتی برادری کو لاحق شدید خطرات کی مکمل عکاسی نہیں کرتے ہیں۔ اس فہرست میں افغانستان پانچوے درجے پر ہے۔ اس سے پہلے دو سالوں میں بھی یہ ملک اسی درجےپر تھا۔ حالاں کہ سی پی جے کے انڈیکس میں افغانستان کا رینک وہی رہا لیکن اس کے باوجود، سال 2021 میں وہاں صحافیوں کے لیے حالات بہت ہی دشوار ہوتے نظر آئے کیوں کہ امریکی افواج کے انخلا اور صدر اشرف غنی کے ملک چھوڑنے کے بعد اگست کے درمیانی حصے میں طالبا ن کا قبضہ ہو گیا۔ سیکڑوں صحافی افغانستان سے بھاگ نکلے کیوں کہ وہ طالبان کے صحافتی آزادی سے متعلق خراب ریکارڈ سے خائف تھے اور اپنی تحفظ کو لے کر شدید خدشات کے شکار تھے۔
گزشتہ 10 سالوں کے اندر افغانستان میں مارے گئے 17 صحافیوں کے لیےانصاف ملنا پہلے ہی مشکل نظر آتا ہے اور اب وہاں بھی صومالیہ اور دیگر ممالک کی طرح قاتلوں کے بچ کر نکل جانے کا سلسلہ مزید دراز ہو سکتا ہے۔اس ملک کا عدالتی نظام زوال اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ کیوں کہ ایسی خبریں سامنے آ رہی ہیں کہ وہاں عدالتیں بند ہو رہی ہیں اور وکلا ملک چھوڑ کر جا رہے ہیں نیز خاتون جج چھپ چھپاکر زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ اس کے علاوہ طالبان کی حکومت میں صحافیوں کے خلاف جرائم کے مرتکبین پر کارروائی نہیں ہونے کے سلسلے کو ختم کرنےاور اس کے لیےبڑھتے عالمی دباؤکا دروازہ بند کرنے کا امکان افغانستان کی گزشتہ حکومت سے بھی کم نظر آتا ہے۔
طالبان قیادت نے صحافتی آزادی کو تحفظ فراہم کرنے کاوعدہ کیا تھا لیکن کچھ ہی دنوں کے اندر ان کا یہ وعدہ کھوکھلا ثابت ہوتا نظرآیا ۔ اس کے مجاہدین میڈیا اہلکاروں کے خلاف کئی غیر موزوں کاروائیوں میں شامل پائے گئے جیسے انہیں مارنا پیٹنا اور اپنی من مانی کرتے ہوئے انہیں حراست میں رکھنا۔ 2020 میں قتل ہوئے پانچ میں سے دو صحافیوں – ریڈیو آزادی رپورٹر الیاس داعی اور فری لانس صحافی رحمت اللہ نیک زاد – کو ان کی موت سے پہلے طالبان کی طرف سے دھمکیاں دی گئی تھیں۔چنانچہ موجودہ حالات میں اس بات کی کم ہی امید ہے کہ افغانستان کی نئی طالبا ن حکومت ان دونوں صحافیوں کے قاتلوں کو تلاش کرنے کے لیے کسی طرح کی مستعدی کا مظاہرہ کرے گی۔
افغانی صحافی کو دولت اسلامیہ کے جنگجؤوں کی طرف سے بھی خطرات لاحق ہیں۔ اس گروہ نے اپریل 2018 میں ہوئے خودکش حملے جس میں کم از کم نو صحافی مارے گئے تھے ‘ کی ذمہ داری لی تھی۔ اس کے علاوہ اسی جماعت نے ملالئی میوند جیسے صحافیوں کے انتقامی قتل کی بھی ذمہ داری لی تھی۔ اگست میں طالبان کے کابل پر قبضے کے کچھ ہفتوں کے اندر دولت اسلامیہ کے مقامی یونٹ آئی ایس آئی ایس۔ کے[دولت اسلامیہ خراسان] نے کہا تھا کہ مختلف مہلک حملوں‘جن میں کابل ایئرپورٹ پر ہونے والا حملہ اور طالبان کو نشانہ بنانےکے لیے کیے گئے دوسرے حملے بھی شامل ہیں‘ کے پیچھے اسی کا ہاتھ تھا۔
سی پی جے انڈیکس کی دس سالہ مدت – جومختلف قسم کے ہنگاموں سے پر تھا، اس میں سیریا میں خانہ جنگی، عرب حکومتوں کے خلاف بڑے سطح پر احتجاج، انتہاپسند جماعتوں اور منظم جرائم سنڈیکیٹ کی طرف سے میڈیااہلکاروں کے خلاف حملے وقوع پذیر ہوئے – میں دنیا بھر میں 278 صحافی اپنے پیشہ ورانہ کام کی وجہ سے مارے گئے۔ سی پی جے نے پایا کہ 266 یا 81 فیصد معاملوں میں کسی بھی شخص کا جرم ثابت نہیں ہوا۔ سی پی جے کے مطابق گزشتہ انڈیکس کی مدت (1 ستمبر 2010 سے 31 اگست 2020 تک) میں صحافیوں کے قتل کے 81 فیصد معاملے حل نہیں ہو سکے۔ دی روڈس ٹو جسٹس رپورٹ‘ جو صحافیوں کے قتل کے معاملوں میں مجرموں کے نہیں پکڑے جانے کے اسباب پر 2014 میں کی گئی ایک تحقیق پر مبنی ہے‘ میں سی پی جے نےبتایا ہے کہ 2013 سے 2014 کے دوران 10 میں سے 9 معاملوں میں قاتلوں کے خلاف کارروائی نہیں ہوئی۔
مجرمانہ واقعات میں ملوث افراد کی ذمہ داری طے نہیں کیے جانے کے پیش نظر تما م 12 ممالک کے نام سی پی جے انڈیکس میں کئی بار شامل ہو چکے ہیں۔2008 میں سی پی جے کے ذریعے رینکنگ کی شروعات کیے جانے کے بعد سے ان میں سے سات ممالک ہر سال اس نڈیکس کا حصہ بنتے رہے ہیں۔
اس فہرست میں میکسکو مسلسل دو سالوں تک چھٹے درجے پر رہا۔صحافی جیویر والڈیز کارڈیناس اور میرسلاوا بریچ ویلڈوسیہ کے قتل معاملے میں مجرموں کا جرم ثابت ہونے کے باوجود اس ملک میں میڈیاکو مختلف عناصر کے ذریعے نشانہ بنایا جاتا رہا۔سی پی جے کی تحقیق کے مطابق 1 جنوری 2021 سے 31 اگست 2021 کے دوران کم از کم تین افراد کا قتل ان کے صحافتی کاموں کی وجہ سے کر دیا گیا اور ان کے قاتل اب بھی آزاد گھوم رہے ہیں۔ اس ملک میں سال 2020 میں چار صحافی مارے گئے تھے۔ 2020 میں صحافیوں کے قتل کی شرح کے اعتبار سے افغانستان کے بعد میکسکو کا ہی نمبر آتا ہے۔
2020 میں عالمی سطح پر کم از کم 22 صحافیوں کو ان کے پیشہ ورانہ کام کی وجہ سے قتل کرنے کے لیے سگنل آؤٹ کیا گیا۔یہ تعداد 2019 کے مقابلے میں دو گنا سے بھی زیادہ ہے۔ 2021 میں اب تک ہوئے صحافیوں کے قتل کی تعداد گزشتہ سال ہوئے قتل کی تعداد (22)سے قریب قریب نظر آ رہی ہے لیکن افغانستان اور دوسرے پر خطر ممالک میں سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے اِس سال کی حتمی فہرست کا ابھی اندازہ لگا بہت مشکل معلوم ہوتا ہے۔
اس انڈیکس میں 11وے درجے کے ساتھ بنگلہ دیش کی رینک بہتر ہوتی نظر آئی۔ یہ بہتری اس لئے آئی ہے کیوں کہ وہاں سیکولر بلوگر اوی جیت رائے اور اس کے ناشر فیصل عارفین دپن کے 2015 میں ہوئے قتل کے کیس میں قاتلوں کا جرم ثابت کیا گیا اور انہیں سزا سنائی گئی۔کالعدم جنگجو گروہ انصار الاسلام کے کئی ممبران کو مختلف قتل کے واقعات میں ان کے کردار کی وجہ سے موت کی سزا سنائی گئی۔ (سی پی جے سزائے موت کی حمایت نہیں کرتی اور اس نے بنگلہ دیش سے گزارش کی ہے کہ انہیں ’’ہمدردانہ‘‘ [Humane] سزا سنائی جائے۔)
سال 2021 میں مزید دوہائی پروفائل کیسز میں مجرموں کو سزا سنائی گئی اور مثبت پیش رفت کا مظاہر ہ کیا گیا۔ یہ واقعات ان دو ممالک میں ہوئے ہیں جنہیں سی پی جے انڈیکس میں شامل نہیں کیا گیا ہے۔اگست کے مہینے میں مالٹا میں بزنس مین یورگن فینچ پر تفتیشی صحافی ڈیفنی کیروانا گلیزیا کے (2017 میں ہوئے ) قتل میں اس کے مبینہ کردار کی وجہ سےفردجرم عائد کیا گیا ۔یہ ایک ایسا قدم تھا جسے مقتول کی بہن کورین ویلا نے ’’انصاف کی تلاش میں ایک اہم موڑ‘‘ قرار دیا ۔ فروری کے مہینے میں اسی صحافی کے ایک مبینہ قاتل نے عدالت میں اپنا جرم قبول کیا اوراسے 15 سال کے قید کی سزا سنائی گئی۔ جون کے مہینے میں سلوواکیہ کی سپریم کورٹ نے تفتیشی صحافی جان کوکیاک اور اس کی منگیتر کے(2018 میں ہوئے) قتل کے معاملے میں دو لوگوں کی رہائی کے(نچلی عدالت کے ذریعے دیئے گئے ) فیصلے کو منسوخ کر دیا۔ اس قدم کی وجہ سےایک صحافی کے لیے انصاف کی راہ میں کھڑی ایک رکاوٹ کا قلع قمع ہو گیا۔ صحافی جان کوکیاک کوبھی – کیروانا گلیزیا کی طرح ہی- یورپی یونین میں بدعنوانی کے بارے میں رپورٹنگ کرنے کی وجہ سے موت کے گھاٹ اتاردیا گیا تھا۔
عالمی امپیونٹی انڈیکس
Index rank | Country | Population* | Unsolved murders |
1 | Somalia | 15.9 | 25 |
2 | Syria | 17.5 | 21 |
3 | Iraq | 40.2 | 18 |
4 | South Sudan | 11.2 | 5 |
5 | Afghanistan | 38.9 | 17 |
6 | Mexico | 128.9 | 27 |
7 | Philippines | 109.6 | 13 |
8 | Brazil | 212.6 | 14 |
9 | Pakistan | 220.9 | 12 |
10 | Russia | 144.1 | 6 |
11 | Bangladesh | 164.7 | 6 |
12 | India | 1,380.0 | 20 |
طریقۂ تحقیق
سی پی جے گلوبل امیونٹی انڈیکس میں ہر ملک کی آبادی کے تناسب کے اعتبار سے صحافیوں کے قتل کے غیر حل شدہ معاملوں کی تعداد کا تعین کیا جاتا ہے۔اس انڈیکس میں سی پی جےنے ان واقعاتِ قتل کا جائزہ لیا جو 1 ستمبر 2011 سے 31 اگست 2021 کے بیچ واقع ہوئے لیکن اب تک انہیں حل نہیں کیا جا سکا۔ اس میں انہی ممالک کو شامل کیا گیا ہے جہاں پانچ یا اس سے زیادہ صحافیوں کے قتل کے معاملے سلجھائے نہیں جا سکے ہیں۔ سی پی جے کی تعریف کے مطابق قتل کا مطلب کسی خاص صحافی کا اس کے صحافتی کاموں کی وجہ سے ارادتاََ ماراجانا ہے۔اس انڈیکس میں جنگ یا پرتشدد احتجاج و مظاہرے جیسے خطرناک اسائمنٹ کے دوران مارے جانے والے صحافیوں کی روداد کو شامل نہیں کیا گیا ہے۔ کسی بھی معاملے کو اس وقت ’غیر حل شدہ‘ مانا جا تاہے جب کسی کا بھی جرم ثابت نہیں کیا جاسکے حالاں کہ مشتبہ افراد کی شناخت کی جا چکی ہو اور وہ زیر حراست ہوں۔ ایسے معاملے جن میں سارے مشتبہ افراد کے بجائے کچھ کا جرم ثابت کیا جا سکے تو انہیں بیان کرنے کے لیے ’مجرموں کے خلاف کارروائی کا جزوی فقدان‘ [partial impunity] جیسے الفاظ کا استعمال کیا جاتا ہے۔ اس انڈیکس میں انہی واقعاتِ قتل کا جائزہ لیا گیا ہے جن میں مجرموں کے خلاف کارروائی کا مکمل فقدان نظر آتا ہے۔ اس میں ان واقعات کو شامل نہیں کیا گیا ہے جن میں جزوی یا ادھورا انصاف فراہم کیا جا چکا ہے۔ ہر ملک کی ریٹنگ یا درجہ بندی کے لیے ورلڈ بینک کے 2020 ورلڈ ڈیولپمنٹ انڈیکیٹرس کے ذریعے جاری شدہ آبادی کے اعداد و شمار کا استعمال کیا گیا ہے۔